شریک حیات کا انتخاب

Marriage and Selection of Life Partner

شریک حیات کا انتخاب :اختیار کس کا؟

تحریر – قاسم علی شاہ

ہم شادی کیوں کرتے ہیں؟میرا یہ سوال ہر عقل و شعور والے سے ہے اورجب بھی میں نے یہ بات پوچھی ،مجھے جواب ملا: ’’خوشی حاصل کرنے کے لیے‘‘لیکن اس سوال پر میرا ایک اور سوال ہے ۔کیاشادی کرنے کے بعد مرد اور عورت خوش بھی ہوتے ہیں؟معاشرے کی اکثریت بتاتی ہے کہ نہیں ، شادی کے بعد بھی خوشی نہیں ملتی اور اس کی عملی مثال شادی شدہ فرد کے دُکھڑے، روزبروز ہوتے میاں بیوی کے جھگڑے اورطلاق و خلع کی صورتیں ہیں جو ہمیں نظر آرہی ہیں۔شادی شدہ زندگی کو محبت سے کم اور مجبوری سے زیادہ چلایا جارہا ہوتا ہے اور بعض دفعہ تو یہ بھی سننے کو ملتا ہے کہ ہمارا تعلق تو برسوں پہلے ختم ہوچکا ہے ، اب بس بچوں کی وجہ سے اور خاندان یا معاشرے کے دباؤ کی وجہ سے ساتھ ہیں ،ورنہ تو کب کی علیحدگی ہوچکی ہوتی ۔

▪️مرد اور عورت خالق کائنات کی نظر میں انسان کی تخلیق اللہ نے مٹی سے کی اور اس کو اشرف المخلوقات قراردیا ۔پھر اسی کی بائیں پسلی سے عورت کو پیدا کیا۔دونوں کے دِل میں ایک دوسرے کے لیے کشش رکھ دی اور محبت کے پاک جذبے سے انہیں سرفراز فرمایا تاکہ وہ دونوں ایک دوسرے کے ہمدرد و غم گسار ہوں اور ایک دوسرے کی جذباتی تکمیل کرسکیں۔چنانچہ سورۃ الروم کی آیت نمبر 21 میں ارشاد فرمایا:

’’اور اس کی نشانیوں میں سے یہ بھی ہے کہ تمہارے لیے تم ہی میں سے بیویاں پیدا کیں تاکہ ان کے پاس چین سے رہو اور تمہارے درمیان محبت اور مہربانی پیدا کر دی۔

‘‘اس آیت سے واضح ہوجاتا ہے کہ نکاح اور شادی کا اصل مقصد ایک پرسکون اور خوشیوں بھری زندگی کا آغاز ہے اور اگر ایسا نہیں ہے تو پھر یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ معاشرتی اور اجتماعی طور پر کہیں نہ کہیں ہم سے غلطی ہورہی ہے جس کی وجہ سے ہم اس خوبصورت رشتے کے ان فوائد سے محروم ہیں جنہیں اللہ نے بیان کیا ہے۔

ہم جس خطے میں رہتے ہیں یہاں ہر انسان کی اوسط عمر ساٹھ سے ستر سال ہوتی ہے ۔یہاں شادی پچیس سے پینتیس سال کے درمیان ہوجاتی ہے ،یعنی شادی کے بعد انسان کے پاس جینے کے لیے آدھی زندگی ہوتی ہے۔اس سے پہلے کی آدھی زندگی اس کی پرورش ، تعلیم و تربیت، شعور کی پختگی اور ایک مناسب نوکری یا کاروبار ڈھونڈنے میں لگ جاتی ہے۔شادی کے بعد ہر انسان کی عقل پختہ ہوچکی ہوتی ہے ۔وہ معاشرے کے اچھے برے کوسمجھ چکا ہوتا ہے۔ایک معقول ذریعہ آمدن بھی اختیار کرچکا ہوتا ہے ، یعنی وہ ایک اختیار مند، عقل مند اور کسی حدتک دولت مند انسان بن چکا ہوتا ہے ۔عقل کا تقاضا ہے کہ اب اس کے بعد کی زندگی خوش حال ہونی چاہیے کیونکہ انسان کوتقریباًوہ سب کچھ مل چکا ہوتا ہے جس کے لیے اس نے کئی سال محنت کی ہوتی ہے لیکن۔۔۔ ایسا نہیں ہوتا۔

تو پھر وجہ کیا ہے؟وجہ سمجھنے کے لیے ہمیں اپنے معاشرتی اقدارکو سمجھنا پڑے گا۔

▪️شریک حیات کا انتخاب:اختیار کس کا شادی دو انسانوں کے بندھن کا نام ہے اور اس بندھن کو قائم کرنے کے لیے سب سے پہلے مردکے لیے عورت اور عورت کے لیے مرد کا انتخاب کرنا پڑتا ہے۔ عام طورپر یہ فریضہ والدین یا دیگر رشتے دار نبھاتے ہیں اوراگرکہیں لڑکا یا لڑکی ایسا کوئی فیصلہ کرگزرے یا صرف بات ہی کرلے تو اس کو بہت معیوب سمجھا جاتا ہے اور انہیں شرم دلائی جاتی ہے ۔والدین کے پاس اختیار ہونے کے فوائد بھی ہیں اور نقصانات بھی ۔اگر بچہ زیادہ عقل و فہم والا نہیں ہے اور وہ فقط جذبات کی رو میں ایسا فیصلہ کررہا ہے تو پھر اس صورت میں والدین کو اپنی سرپرستی کا حق ادا کرتے ہوئے اپنے بچے کے لیے اس جگہ رشتہ طے کرنا چاہیے جو والدین کے لیے نہیں بلکہ ان کے بچے کے لیے زیادہ مفید ہو۔

والدین کے پاس اختیار کا حق ہو؛اس کاایک منفی پہلو بھی ہے کہ اس ڈیجیٹل دور میں جب پوری دنیا کے فاصلے سمٹ چکے ہیں اور زمانہ ترقی کے مداروں کو چھورہا ہے ، ایسے میں نئی نسل کو زبردستی اپنے فیصلے پرمجبور کرنا یا ان کے لیے ایسے رشتے کا انتخاب کرنا جن کی آپس میں ذہنی ہم آہنگی نہ ہو تو یہ بھی نقصان سے خالی نہیں۔

▪️بچپن کا رشتہ:نامناسب فیصلہ ہمارے معاشرے میں بعض جگہ یہ بھی رواج ہے کہ بچوں کے بچپن میں ہی رشتے ہوجاتے ہیں۔یہ فیصلہ بعد میں بہت سارے مسائل کا باعث بنتاہے اور یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ بعض دفعہ اس رشتے سے انکار پر دونوں خاندانوں کے درمیان دشمنی تک شروع ہوجاتی ہے۔دیکھا جائے تو یہ فیصلہ کسی بھی طور پرعقل و شعورکے مطابق نہیں۔ایک چھوٹی سی بچی کو ایک عورت اپنی بہو سمجھ کر اس کے لیے کپڑے ، جوتے اور کھلونے لارہی ہوتی ہے ۔اسی طرح ایک چھوٹے لڑکے کو داماد سمجھ کر دوسری عورت کپڑے اور جوتے لے کر دے رہی ہوتی ہے ۔یہ ایک طرح سے انویسٹمنٹ ہوتی ہے جس کے بعد میں بڑے منفی نتائج نکلتے ہیں۔اس رشتے میں اگر لڑکا اچھا پڑھ لکھ جائے او رمحنت کرکے ایک اعلیٰ روزگار یا سرکاری عہدہ حاصل کرلے تو پھر وہ کیسے اس لڑکی سے شادی کے لیے راضی ہوگا جو کہ واجبی سی تعلیم رکھتی ہے۔لڑکا جیسے ہی انکار کرتا ہے تو معاشرہ اس کو مجرم سمجھنا شروع ہوجاتا ہے ۔بحیثیت انسان ہمیں یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ کوئی بھی چیز مستقل ایک حالت میں نہیں رہتی ۔ حالات، لوگ ، معاشی کیفیت، صحت ، سوچ ، عقل وفہم،مشاہدہ ویقین یہ تمام وہ چیزیں ہیں جو وقت کے ساتھ ساتھ تبدیل ہوتی رہتی ہیں ۔عین ممکن ہے کہ آج کا فیصلہ ، پانچ سال بعد کارآمد اور اہم نہ ہو۔اس حقیقت کو سامنے رکھتے ہوئے یہ کہا جاسکتا ہے کہ بچپن میں طے کیے گئے رشتے نقصان سے خالی نہیں ہوتے۔معاشرے کی ان اقدار کو بدلنے کی ضرورت ہے جو اسلامی تعلیمات اورعقل و فہم سے متصادم ہیں۔

▪️اختیار کا حق بچوں کو ملنا چاہیے ؟ اس کے بھی منفی اور مثبت پہلو ہیں:

منفی پہلو

اس اختیار کا منفی پہلو یہ ہے کہ بعض دفعہ لڑکا اور لڑکی اپنے اس حق کو جذبات کی بھینٹ چڑھادیتے ہیں ۔عشق و محبت کی گرمی میں وہ حقائق سے منہ چھپالیتے ہیں اور یہ چیز ان کی شادی شدہ زندگی بے سکون کرنے کا باعث بن جاتی ہے۔چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ معاشرے میں لومیرج کے نام سے کی گئی شادیاں وقت سے پہلے ہی انجام پذیر ہوجاتی ہیں۔بچوں کو اختیار ملنا چاہیے لیکن اس اختیار کو جذبات کی بھینٹ چڑھانا نہیں چاہیے ۔

ہمارے معاشرے کا المیہ یہ بھی ہے کہ یہاں اکثر نوجوان لڑکا،لڑکی آپس میں محبت کا دعویٰ کربیٹھتے ہیں ، پھر فورا سے شادی کا فیصلہ بھی کرلیتے ہیں اور اس مقصد کو پانے کے لیے تمام حدیں توڑدینے کو تیار رہتے ہیں۔

یادرکھیں! انسان جب بھی جذباتی کیفیت میں ہوتا ہے تو اس کی آنکھوں پر پٹی بندھ جاتی ہے ۔لو میرج کی صورت میں بھی لڑکا اور لڑکی ایک دوسرے کی خامیوں کو نظر انداز کررہے ہوتے ہیں ۔کسی طرح اگر ان کی شادی ہوبھی جائے تو کچھ ہی عرصہ میں محبت کا بخار اتر جاتا ہے ۔جب حقیقت سامنے آتی ہے توان کی محبت بھی پھیکی ہوناشروع ہوجاتی ہے۔پھر وہی لڑکا جو کبھی گھٹنوں پر بیٹھ کر محبت کا اظہار کیا کرتا تھا ، اب اپنی اسی ’’محبوبہ‘‘ کو جوتی کی نوک پر رکھ رہا ہوتا ہے۔ ایسی محبت کا کیا فائدہ ، جس میں انسان آنکھیں بندکرکے ایک بڑا قدم اٹھائے اور بعد میں وہ اس کی زندگی بھر کے لیے عذاب بن جائے ۔

مثبت پہلو

مثبت پہلو یہ ہے کہ بچے اپنی عقل و شعور کی بدولت ایک ایسے انسان کا انتخاب کرسکتے ہیں جوواقعی میں ان کا شریک حیات بنے اور وہ زندگی کے گرم وسرد حالات میں بھی اس کا ساتھ نہ چھوڑے۔ شریعت ، فطرت ، اخلاقیات اورقانون ہر انسان کو یہ حق دیتا ہے کہ وہ اپنے لیے ایک بہترین شریک حیات کا انتخاب کرے اور یہ بات عقل کے زیادہ قریب بھی ہے کیونکہ جب انتخاب ان کا ہوگا تواچھے برے نتائج کے ذمہ دار بھی وہ خود ہوں گے اور یہ چیز ان میں احساسِ ذمہ داری پیدا کرے گی۔

شادی کا اختیار بچوں کو نہ دینا ،شاید کسی زمانے میں بہتررہا ہو ، جب اس وقت مشاہدہ ، تجربہ اور وسائل اس قدر زیادہ نہیں تھے لیکن آج دیکھا جائے تواب اس طرح کے حالات نہیں رہے ۔کئی سارے اصول و ضوابط ایسے ہوتے ہیں جن پر کسی زمانے میں عمل پیرا ہواجاتا ہے لیکن بعد کے زمانے کے لیے وہ کارآمد نہیں رہتے۔اس ضمن میں ایک لطیفہ بھی مشہور ہے کہ جن لوگوں کی ارینج میرج ہوئی ہوتی ہے ، انہیں اگر دوبارہ شادی کا موقع دے دیا جائے توشاید وہ اپنی بیوی سے شادی نہ کریں ، ایسے ہی عورت بھی شاید اپنے لیے اپنے ہی خاوند کا انتخاب نہ کرے۔کیونکہ وقت کے ساتھ ساتھ انسانوں کی حقیقت اور ان کا مزاج کھلتاجاتا ہے اور کچھ عرصے بعد جاکر علم ہوتا ہے کہ یہ انسان میرے موافق نہیں ہے۔لیکن اگر یہی چیز شادی سے پہلے متعین ہوجائے کہ یہ انسان میرے مزاج کا ہے ، تو اس رشتے کے دیرپا چلنے کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں۔

شادی کے لیے انتخاب کرتے وقت حسن اور خوبصورتی کو ضرور مدِ نظر رکھیں لیکن یہ بات بھی یادرکھیں کہ یہ زندگی کا ایک اہم ترین فیصلہ ہے ۔اس میں جذبات کا استعمال 20فیصد جبکہ باقی 80فیصد عقل و شعور کا استعمال ہوناچاہیے ۔لڑکی کا انتخاب کرتے وقت اس بات کو بھی دیکھنا چاہیے کہ یہ ایک سگھڑ بیوی، بہترین ماں اوراچھے انسان کے طورپر کیسے ہوگی؟ اسی طرح لڑکے کا انتخاب کرتے وقت بھی اس کی احساسِ ذمہ داری ، خیال رکھنے اور قربانی دینے کو ترجیح میں رکھنا چاہیے ۔اس معیار پر بنائے گئے رشتے تادیر چلتے ہیں اور میاں بیوی خوش و خرم زندگی بسر کرتے ہیں۔

▪️اختیار بچوں کے پاس رہے یا والدین کے پاس ، اس کی بہترین صورت یہ ہے کہ بچوں اور والدین کی آپس میں کمیونیکیشن مضبوط ہو۔بچے اپنی پسند کا اظہا ر کریں اور والدین سے ان کی مدبرانہ رائے لیں۔اسی طرح والدین اگر کہیں رشتہ کرانا چاہیں تو اپنی پسند کا اظہار بچوں کے سامنے بڑے مناسب طریقے سے کریں اور ان کے سامنے یہ بات رکھیں کہ یہ رشتہ آپ کی ذات اور آنے والے مستقبل کے لیے کس حدتک مفید ہے۔بچے اور والدین جب آپس میں مربوط ہوں گے تو ایسے معاملا ت کو بڑے اچھے انداز میں ڈیل کیا جاسکے گا۔

▪️شادی کی ایس او پیزجس طرح ہمارے دوسرے معاملات میں ایس او پیز کا خیال رکھا جاتا ہے اور انہیں فالو کیا جاتا ہے ، ایسے ہی شادی کے سلسلے میں بھی کچھ ایس او پیز کا خیال رکھنا چاہیے.

(1)دین داریاللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :’’ عورت سے نکاح چار چیزوں کی بنیاد پر کیا جاتا ہے اس کے مال کی وجہ سے اور اس کے خاندانی شرف کی وجہ سے اور اس کی خوبصورتی کی وجہ سے اور اس کے دین کی وجہ سے اور تو دین دار عورت سے نکاح کر کے کامیابی حاصل کر، اگر ایسا نہ کرے تو تیرے ہاتھوں کو مٹی لگے گی (یعنی اخیر میں تجھ کو ندامت ہو گی)۔(صحیح البخاری:5090)

(2)حقائق کو تسلیم کرنا رشتے کا انتخاب کرتے وقت اس انسان کی حقیقی زندگی کو مدِنظر رکھنا چاہیے اور اسی حقیقی زندگی کی بنیاد پر ہی شادی کا فیصلہ کرلینا چاہیے ۔اگر صرف ظاہر ی رکھ رکھاؤ ،مال و دولت اور فیشن ایبل زندگی کو دیکھ کر فیصلہ کیا گیا تو یہ خطرے سے خالی نہیں۔

(3)توقعات سے پرہیز رشتے کے انتخاب میں لڑکے والوں کی طرف سے بھاری بھرکم جہیز اور لڑکی کی طرف سے بھاری تنخواہ، گھر وغیرہ جیسی مادی توقعات کے بجائے اچھے اخلاق ، بہترین رویے،اعلیٰ ظرفی، خوفِ خدا اور قربانی کو پیش نظر رکھنا چاہیے ۔اگر رشتے کی بنیاد حد سے زیادہ توقعات پر ہو تو وہ بھی پائیدار نہیں اور بہت جلد اس میں دراڑیں پڑجائیں گی۔

(4)اچھے خاندان کی تکمیلنکاح کامقصد صرف جنسی تکمیل نہ ہو ، بلکہ ایک اچھے خاندان کی تکمیل کرکے معاشرے کو بہتربنانے کاعزم ہونا چاہیے۔

(5)ذہنی ہم آہنگی یہ نکتہ اگر چہ آخر میں بیان کیا جارہا ہے لیکن یوں سمجھ لیں یہ ازدواجی زندگی کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے۔کیونکہ اسی بنیاد پر میاں بیوی ایک دوسرے کابھرپور ساتھ دے سکتے ہیں، خوش وخرم رہ سکتے ہیں اور اس خوبصورت تعلق سے نہ صرف اپنے لیے بلکہ دوسروں کے لیے بھی نفع مند ثابت ہوسکتے ہیں۔

اگر خدانخواستہ کسی رشتے میں یہ چیز نہ ہوتو پھر بھی میاں بیوی میں اتنا ظرف ضرور ہونا چاہیے کہ اختلاف کے باوجود بھی ایک دوسرے کا احترام کریں اور ایک دوسرے کو برداشت کریں ۔یہ چیز یقینا ان کی شادی شدہ زندگی میں سکون لانے کا باعث بنے گی۔

Advise for Marriage – Shadi – Husband Wife – Life Partner – Love Marriage – Arrange Marriage – Urdu Information – Urdu Article – Urdu Encyclopedia