Sad Love Poetry
یارم تُمہارا شہر، جِدھر ہے اُسی طرف
اِک ریل جا رہی تھی کہ، تُم یاد آ گئے..
_____________________________
ہم جیسے لوگ لائقِ تضحیک ہیں امیر
ہم جیسوں نے خُدا کا بہت دل دکھایا ہے
امیر مینائی
_____________________________
اُس پیڑ سے پنچھی روٹھ گئے
اُس کا مُرجھانا اچھا تھا
راوی یہ روایت کرتا ہے
لاہور پُرانا اچھا تھا
جی ایم شاہ
_____________________________
باتیں سڑک پر رہ جاتی ہیں
ساتھی دور نکل جاتے ہیں
رئیس فروغ
_____________________________
پھر سے قبولیت کے یقیں پر ، پڑے رہے
پھینکے جہاں پہ پھول ، وہیں پر پڑے رہے
جسکو ملے تھے اس کو ضروری نہیں لگے
ہم تھے کہیں کی خاک ، کہیں پر پڑے رہے
آنکھوں میں خواب پالتی ، لیکن وہ بے شعور
بچوں سی ضد لگائی ، زمیں پر پڑے رہے
اک سمت داستاں تھی رہائی کی ایک سمت
بے جان جسم اور حسیں پَر ، پڑے رہے
لے دے کے اک مکان بنایا پھر ایک عمر
کتنے بہت سے بوجھ مکیں پر پڑے رہے
دنیا بڑی کٹھور حسینہ تھی ، اسی لیے
دو چار بل ہمیشہ جبیں پر پڑے رہے
کومل جوئیہ
_____________________________
محوِ خیالِ یاس ہیں، بے اختیار ہیں!
ہم بے بسی کے دشت میں چیخ و پُکار ہیں!
مٹی کا ایک ڈھیر تھے ہم راہِ یار میں ،
جب سے پڑے ہیں اُسکے قدم، اِک مزار ہیں!
وہ ہے سکوتِ شب کو مٹاتا ہوا دِیا ،
ہم اُس کی لٙو پہ ڈگمگاتا انتظار ہیں!
ہم صوفیوں کے طرز پہ جیتے ہیں عشق میں ،
جتنے ہیں اہلِ درد ہمارے وہ یار ہیں!
احسن اقبال احمد
_____________________________
میں ٹھنڈے توے کی روٹی ہوں
مجھے بے دھیانی میں ڈالا گیا
مجھے بے دردی سے پلٹا گیا
میرے کتنے ٹکڑے اکھڑ گۓ
میں ٹھیک سے سینکی جانہ سکی
میں کسی چنگیر میں آ نہ سکی
میرا پسنا گندھنا اور جلنا
بے کار گیا میں ہار گٸ
اک بے دھیانی مجھے مار گٸ
حمیدہ شاہین
_____________________________
وہ غم شناس لوگوں پہ کرتا یقیں اگر
اس کے یقیں کو آخری شب تک سنبھالتے
اپنی انا کی موج میں ہے وہ اور ایک ہم
پھرتے ہیں اسکے عہد کو اب تک سنبھالتے
سب خواہشات مار کے بس اک تری طلب
لایا ہوں دل کی غار سے لب تک سنبھالتے
آخر کو ہم سے چھوٹ ہی جانا تھا اسکا ہاتھ
ہم ناسپاس لوگ تھے کب تک سنبھالتے
حسنین آفندی
_____________________________
جانے کس غم میں گرفتار ہیں بستی کے مکیں
نوجواں لوگ بھی بوڑھوں کی طرح لگتے ہیں
ہجر جب مسندِ تشہیر پہ آتا ہے تو لوگ
چلتی پھرتی ہوئ قبروں کی طرح لگتے ہیں
تجھ سے وابستہ ہر اک شخص مجھے پیارا ہے
یہ وہ کانٹے ہیں جو پھولوں کی طرح لگتے ہیں
یہ ہے سادات کی بستی کہ جہاں سارے مکاں
عصر ڈھلتی ہے تو خیموں کی طرح لگتے ہیں
جناب راکب مختار
_____________________________
اتنا آساں تو نہیں عمر کا کٹنا ، تنہا
جانا ہمراہ ترے اور پلٹنا ، تنہا
دکھ بچھڑنے کا نہیں اسکی اسی بات کا ہے
“اب مسائل سے مری جان نمٹنا ، تنہا”
بزمِ ہستی میں ہے دشوار بہت ، تیرے بغیر
چال ہر ایک منافق کی الٹنا ، تنہا
یوں تعلق کو نبھایا ہے اکیلے ، جیسے
اک اپاہج کا سڑک وار گھسٹنا ، تنہا
اچھا لگتا ہے بھرے شہر سے کٹ کر کومل
اس کے خوش رنگ خدو خال کو رٹنا ، تنہا
کومل جوئیہ
_____________________________
ہوتی جو نہیں تم سے تو پھر کرتے ہی کیوں ہو
تم لوگ محبت کا بھی نقصان کرو گے __!!
دانش نقوی
_____________________________
پوچھ رہے ہو ہم سے کہ ہم اس پر کتنا خرچ ہوئے
کچھ بھی باقی پاس نہیں ہے ! مطلب سارا خرچ ہوئے
خود کو جب سنبھال رکھا تو ! اپنے لفظ بھی پاس رکھے
خرچ ہوئے جب ہم تو کوئی ایسا ویسا خرچ ہوئے
اک مسکان کے بدلے نیندیں دیں اور دل کے بدلے جان
بولو پیارے ! بخت ڈھلے ہم ! تم پہ کیسا خرچ ہوئے؟
اس کے ہاتھ میں ہم نے اپنی آخری سانسیں لیں یارو۔
مرنا حق ہے ! لیکن دیکھو کتنا پیارا خرچ ہوئے
اُن ہونٹوں کی مسکانوں نے پھولوں کو بھی ہیچ کیا
جھیل سی آنکھیں بھرنے میں پنجاب کے دریا خرچ ہوئے
حسن رضا
_____________________________
ممکن نہیں کہ ساتھ نبھائیں تمام عمر
ممکن بھی کس طرح ہو کہ دونوں ذہین ہیں
میں ان دنوں بہت سے مسائل میں ہوں گھِرا
تُو نے بچھڑنا ہے تو یہ دن بہترین ہیں
زوہیر عباس
_____________________________
ہم سے دستور محبت کے نبھائے نہ گئے
ایسے اجڑے کہ کبھی پھر سے بسائے نہ گئے
زندگی بیت گئی ہجر کا غم سہتے ہوئے
زائچے ہم سے رفاقت کے بنائے نہ گئے
پاسِ آداب رکھا گیت سُنائے اُن کو
نوحے لکھے تھے مگر ہم سے سُنائے نہ گئے
ہم نے دنیا کے ہر اک زخم کو پوشیدہ رکھا
زخم جو تجھ سے ملے ہم سے چھپائے نہ گئے
چند ساعت کا ملن ایک چُبھن بن کے رہا
لمحے گزرے جو ترے ساتھ بھلائے نہ گئے
بے رُخی سے تری خاموش خموشی سے ہوئے
جو دیئے تیز ہواؤں سے بجھائے نہ گئے
شمس طوفان بہت آئے تھے اِس دل میں مگر
اُن کے قدموں کے نشانات مٹائے نہ گئے
جناب شمس جعفری (بلتستانی)
_____________________________
وہ مسیحا نہ بنا، ہم نے بھی خواہش نہیں کی
اپنی شرطوں پہ جیئے ،اس سے گزارش نہیں کی
جانے کیوں بجھنے لگے اول شب سارے چراغ
آندھیوں نے بھی اگرچہ کوئی سازش نہیں کی
اب کہ ہم نے بھی دیا ترکِ تعلق کا جواب
ہونٹ خاموش رہے،آنکھ نے بارش نہیں کی
اس نے ظاہر نہ کیا اپنا پشیماں ہونا
ہم بھی انجان رہے، ہم نے بھی پرسش نہیں کی
ہم تو سُنتے تھے کہ مل جاتے ہیں بچھڑے ہوئے لوگ
تو جو بچھڑا ہے تو کیا وقت نے گردش نہیں کی
ڈاکٹر عنبریں حسیب عنبر
_____________________________
Shayari – Shair – Yaad – Muhabat – Urdu Encyclopedia